مولانا اسماعیل ریحان صاحب مدظلہ العالی
ہندوستان کا مشہور فاضل،مؤرخ اورانشا ء پرداز ابوالفضل بن مبار ک۹۸۱ھ(۱۵۷۴ء) میں دربارِ مغلیہ سے منسلک ہوا اور ترقی کرتے کرتے وزیرِ اعظم بن گیا۔ آئینِ اکبری اور اکبرنامہ اس کی دوشہرہ آفاق تصانیف ہیں ۔پہلی تیموری دور کے معاشرتی وتمدنی حالات کا مرقع ہے اور دوسری مغل سلاطین کی تاریخ۔ اکبر کو صحیح عقیدے سے منحرف کرنے میں ابوالفضل کا غیرمعمولی ہاتھ تھا۔اس جیسے لوگوں سے متاثر ہوکر اکبر نے اس غیراسلامی اصول کو اپنالیا کہ دین کی منقولہ چیزوں یعنی قرآن و حدیث کی وہ حیثیت نہیں جو علماء بیان کرتے ہیں بلکہ صحیح یاغلط کا اصل دارومدار عقل پرہے۔
ابوالفضل نے فرقہ نقطویہ کے بھی بعض عقائد بھی اپنالیے تھے۔یہ فرقہ ایران میں پیدا ہوا تھا اوراس کا خیال تھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی میعاد ختم ہوچکی ہے اوراب ایک نئے دین کی ضرورت ہے۔چنانچہ اس نے اکبر کے ذہن میں یہ بات بٹھادی کہ دینِ اسلام کی مدت ایک ہزاربرس تھی جو پوری ہوچکی ہے۔اس طرح اکبر کا’’دینِ الٰہی ‘‘ شروع ہواجس میں داخلے کے لیے کلمہ ’’لاالہ الااللہ ، محمد رسول اللہ ،اکبر خلیفۃ اللہ ‘‘ پڑھوایاجاتاتھا۔
……
اس کفریہ تحریک کے خلاف دربارِ اکبری میں اٹھنے والی سب سے طاقتورآواز مرزاعزیزالدین کی تھی جنہیں عموماً مؤرخین خانِ اعظم یا مرزاکوکہ کے القابِ شاہی سے یاد کرتے ہیں۔
خانِ اعظم ،مرزاعزیزاکبر کے رضاعی بھائی تھے۔ہمایوںایران جاتے وقت اکبر کو مرزاعزیز کی والدہ کے حوالے کر گیاتھاجنہیںاکبر ’’جی جی‘‘ کہتا تھا۔جب ہمایوںنے ایران سے لوٹ کراپنے بھائی کامران مرزا کی بغاوت فروکرنے کے لیے کابل کامحاصرہ کیا تھا تو کامران نے نہایت سنگ دلی کامظاہرہ کرتے ہوئے اکبر کو قلعے کی فصیل پر گولوں کی زدمیںبٹھادیاتھاتاکہ بچہ اپنے باپ کی گولہ باری کی نذر ہوجائے۔ایسے میں جی جی نے فصیل پر جاکر اکبر کوگود میں لے لیاتھااورگولوں کی طرف پشت کرکے بیٹھ گئیں تاکہ اکبر سے پہلے ان کی جان جائے۔قسمت نے ساتھ دیااوردونوں بچ گئے۔ مرزاعزیزاسی جی جی کے بیٹے تھے جو اکبر کے ساتھ کھیل کودکر بڑے ہوئے تھے۔وہ فنونِ حرب کے ساتھ ،شعر وادب ، تاریخ اورانشاء پردازی کے بھی ماہر تھے۔
اکبرکے دربارمیں مرزاعزیز کو خانِ اعظم کا خطاب ملا۔ مرزاعزیزمغل سلطنت کے لیے بڑے مخلص اورخیرخواہ تھے۔صاف گوئی ان کاشیوہ تھا۔اپنی رائے بلاکم وکاست بیان کردیتے تھے۔ اکبر بھی ان کی تلخ نوائی کو نیک نیتی پر محمول کرتا تھا۔ جب اکبرنے ابوالفضل جیسے ننگِ ملت درباریوں کے بہکاوے میں آکرایک نئے دین کی داغ بیل ڈالی تومرزاعزیز کو سخت صدمہ ہوا۔تاہم اس کے باوجود وہ اکبرکے وفادار رہے اور دربار سے وابستہ رہ کر ،اس کے ماحول کوتبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔مگر مقابلے میں ابوالفضل تھا جس کی شمشیرِسخن خاراشگاف تھی اورعقلی دلائل کی باران برق خیز ۔ان کے سامنے مرزاعزیز کی طاقتِ گفتارکچھ نہ تھی۔
مرزاعزیزاچھے وقت کے انتظا رمیں صورتحال کو برداشت کرتے رہے۔اکبرسے ان کی ہمدردی اسی طرح باقی تھی اوروہ اسے قابلِ رحم سمجھتے تھے۔یہی وجہ تھی جب دربارکی بداعتقادی سے متنفر ہوکر بہار اوربنگال میں بغاوتیں ہوئیں تو مرزا عزیز نے انہیں فروکرنے میں کسی کوتاہی کاثبوت نہ دیا۔
بنگال کی بغاوت پر قابوپانے کے بعدمحرم۹۹۰ھ(فروری۱۵۸۲ء) میں مرزاعزیز پایۂ تخت فتح پورسیکری واپس آئے تو اس وقت اکبر ی دربار میں الحاد کا طوفان عروج پر پہنچ چکاتھا۔ مرزاعزیز نے اس ماحول کے سب سے بڑے ذمہ داروں ابوالفضل اوربیر بل کو اکبر کے سامنے بلواکر بہت برا بھلا کہا۔دربار میں سجدۂ تعظیمی کرنے یا ڈاڑھی منڈوانے جیسے خلافِ اسلام کاموں کی پابندی کرنے سے انکار کردیا اور اپنی ڈاڑھی کومزید بڑھالیا۔ مرزاعزیز کے سواکسی کویہ جرأت نہیں تھی کہ وہ بادشاہ کے حکم سے سرِ موانحراف کرے ،مگر مرزاعزیز کی جسارت کو اکبر بھی نظر انداز کرتارہا۔اکبر کہتا تھا : ’’میرے اوراس کے درمیان دودھ کا دریابہہ رہاہے۔ اگر وہ تلوار سونت کر بھی آئے توجب تک وہ وارنہ کرے میراہاتھ نہیں اٹھے گا۔‘‘
آخر اکبر کے ملحد درباریوںکو خطرہ پیداہواکہ کہیں مرزاعزیز دربار کو دوبارہ اسلامی رنگ کی طرف لے جانے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔بادشاہ کوان کے خلاف بھڑکانابہت مشکل تھا۔اس لیے ان لوگوںنے مصلحت اسی میں سمجھی کہ خانِ اعظم کو کسی دوردرازعلاقے میں تعینات کرادیاجائے۔چنانچہ انہیں گجرات کاصوبے دارمقررکردیاگیا۔
مرزاعزیز اب دربار کی اصلاح سے مایوس اوراس ماحول سے نہایت بددل ہوچکے تھے،اس لیے دربار سے بلاووں کے باوجود وہ چھ سال تک دوبارہ پایۂ تخت نہ گئے۔البتہ انہوں نے اکبر سے گاہے گاہے خط وکتابت جاری رکھی جس میں اس کفریہ ماحول سے اپنی بے زاری کااظہار کیا۔اپنے آخری خط میں انہوں نے نہایت افسوس کے ساتھ لکھا کہ بادشاہ نے حضرت عثمان وعلی کامقام ، ابوالفضل اورفیضی کو دے دیاہے اورہوسکتاہے کہ انہیں حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے ہم پلہ مان لیاجائے۔
اکبر کو منانے کی تمام کوششیں رائگاں دیکھ کر آخر مرزاعزیز نے ترکِ وطن کافیصلہ کرلیا۔ اس سے پہلے انہوں نے جونا گڑھ پر حملہ کیااورہندوراجاؤں کوشکست دے کر بے پناہ مالِ غنیمت حاصل کیا۔اس کے فوراً بعد وہ مفتوحہ خزانوں سمیت مکہ معظمہ روانہ ہوگئے۔
وہاں یہ ساری دولت حرمین شریفین کی خدمت پرخرچ کی ۔روضۂ اطہر کے اخراجات کا حساب لگوایااورامیرِ حجاز کوپچاس سال کاخرچہ یک مشت پیش کیا۔اس کے علاوہ قالین، سائبان، پردے اوردیگرتعمیراتی وآرائشی سامان مہیا کیا۔ کئی مکانات خرید کر حرم ِ مدینہ میں شامل کیے ۔امیرِ مکہ اور اس کے اہل وعیال کواس قدر دولت دی جس کا حساب لگانا مشکل ہے۔
خانِ اعظم کے چلے جانے سے ان کی والد ہ جی جی غم سے نڈھال ہوگئیں ۔ اکبر کو بھی اس پر سخت تشویش ہوئی مگراس نے خانِ اعظم کے بلااجازت ملک سے چلے جانے پر کسی ناراضی کااظہارنہیں کیابلکہ خانِ اعظم کے جو لڑکے اوررشتہ دارپایۂ تخت میں رہ گئے تھے، ان کے مراتب میں اضافہ کردیا۔اس کے ساتھ ہی اس نے خانِ اعظم کوایک محبت آمیز مراسلہ بھیجا جس میں لکھاتھا:
’’ہم تمہاری آمد کے منتظرتھے۔ جب معلوم ہواکہ تم حرمین شریفین کی زیارت کے لیے چل دیے ہوتوہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ تم جیسامخلص خدمت گار ہمارے حقوق نظر انداز کرکے ہم سے اجازت لیے بغیر رخصت ہوگیا۔اپنی والدہ سے بھی رضامندی نہ لی۔اگر اس مقدس مقام تک پہنچنے کاشوق تھا تو ہم سے رخصت لیناچاہییے تھی۔اگر بہت جلدی تھی تو کم ازکم اہل وعیال کویہاں بھیج دیتے۔ بہرکیف اس خاندان کی خدماتِ حسنہ ایسی ہیں اورخصوصاً جی ؔجی کی خاطر ہمیں اس طرح عزیز ہے کہ اگر ہمیں ملال ہواہے تو وہ عارضی تھا۔ہمیں یہ گوارانہیں کہ تم پردیس میں مارے مارےپھرو ۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ چاہیے کہ تم یہاں آنے کاقصد کرکے ہمیں خوش کرو اورجی جیؔ کے دلی زخم پر مرہم رکھو، جن کی تمہاری جدائی میں یہ حالت ہے کہ خداکسی کونہ دکھائے۔‘‘{انشائے ابوالفضل ،دفتراوّل}