۵ھ کی تمام لڑائیوں میں یہ جنگ سب سے زیادہ مشہور اور فیصلہ کن جنگ ہے چونکہ دشمنوں سے حفاظت کے لئے شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی اس لئے یہ لڑائی ”جنگ خندق” کہلاتی ہے اور چونکہ تمام کفار عرب نے متحد ہو کر اسلام کے خلاف یہ جنگ کی تھی اس لئے اس لڑائی کا دوسرا نام ”جنگ احزاب”(تمام جماعتوں کی متحدہ جنگ)ہے،قرآن مجید میں اس لڑائی کا تذکرہ اسی نام کے ساتھ آیا ہے۔
جنگ خندق کا سبب
میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے”قبیلہ بنو نضیر” کے یہودی جب مدینہ سے نکال دئیے گئے تو ان میں سے یہودیوں کے چند رؤسا ”خیبر” میں جا کر آباد ہو گئے اور خیبر کے یہودیوں نے ان لوگوں کا اتنا اعزاز و اکرام کیا کہ سلام بن مشکم وابن ابی الحقیق وحیی بن اخطب و کنانہ بن الربیع کو اپنا سردار مان لیایہ لوگ چونکہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب میں بھرے ہوئے تھے اور انتقام کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی اس لئے ان لوگوں نے مدینہ پر ایک زبردست حملہ کی اسکیم بنائی،چنانچہ یہ تینوں اس مقصد کے پیش نظر مکہ گئے اور کفار قریش سے مل کر یہ کہا کہ اگر تم لوگ ہمارا ساتھ دو تو ہم لوگ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کر سکتے ہیں کفار قریش تو اس کے بھوکے ہی تھے فوراً ہی ان لوگوں نے یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی کفار قریش سے ساز باز کر لینے کے بعد ان تینوں یہودیوں نے ”قبیلہ بنو غطفان” کا رُخ کیااور خیبر کی آدھی آمدنی دینے کا لالچ دے کر ان لوگوں کو بھی مسلمانوں کےخلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیاپھر بنو غطفان نے اپنے حلیف ”بنو اسد” کو بھی جنگ کے لئے تیار کر لیاادھریہودیوں نے اپنے حلیف ”قبیلہ بنو اسعد” کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا اور کفار قریش نے اپنی رشتہ داریوں کی بنا پر ”قبیلہ بنو سلیم” کو بھی اپنے ساتھ ملا لیاغرض اس طرح تمام قبائل عرب کے کفار نے مل جل کر ایک لشکر جرار تیار کر لیا جس کی تعداد دس ہزار تھی اور ابوسفیان اس پورے لشکر کا سپہ سالار بن گیا۔(زُرقانی ج۲ ص۱۰۴ تا ۱۰۵)
سلمانوں کی تیاری
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اقدسﷺنے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے،مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے،چنانچہ ۸ ذوقعدہ ۵ھ کو حضور ﷺ تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے،حضور ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی اور تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۶۸ تا ۱۷۰)
