مولانا محمداسماعیل ریحان
ابوالحسن اشعری ؒ کے بعدعقائد کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہونے والے علماء میں وسطِ ایشیاکے ابومنصور محمدبن محمدالماتریدی (م ۳۳۳ھ)سب سے نمایاں ہوئے۔وہ سمرقند کے ایک محلّے ’’ماترید‘‘ کے رہنے والے تھے۔ اس دور کے جید عالم اور بے مثل مناظر تھے ۔وسطِ ایشیاو خراسان میں منقولات و معقولات پر یکساں دسترس رکھنے والا ا ن جیسا عالم اورکوئی نہ تھا۔ باطل فرقے ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ان کی گفتگو بڑی دو ٹوک، مدلل اورمتاثرکن ہوتی تھی۔انہوںنے بے شمار مناظروں اورمباحثوں میں معتزلی اورقرامطی مناظرین کوچاروں شانے چت کیا۔
وہ بڑے معتدل مزاج آدمی تھے اورعقائدِصحیحہ کے لیے وہی دلائل پسند کرتے جو واقعی سوفی صد وزنی ہوں۔ان سے پہلے معتزلہ کی ضد کی وجہ سے ابوالحسن اشعری ؒ کے کلام میں بعض تشددآمیزباتیں آگئی تھیںاوران کے پیروکاروں نے ان کی وکالت میں بات کومزید بڑھادیاتھا۔ابومنصور ماتریدی نے علم ِ کلام سے ایسی کم وزن اورزائدباتوں کو نکال دیا جو محض معتزلہ کی ضد میں اس کاجزوبنادی گئی تھیں۔انہوںنے اسلامی عقائدکے عقلی دلائل کو مزید سلیقے، اعتدال اورخوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا۔ابومنصورماتریدی ؒ۳۳۳ھ میں سمرقند میں فوت ہوئے۔
مناظروں کے علاوہ انہوں نے عقائدِ باطلہ کی تردید میں عظیم الشان تصنیفی کام کیا جس میں کتاب التوحید، الردعلی القرامطہ، اوہام المعتزلہ، تأویلات اہل السنۃ،تأویلات القرآن ،کتاب الجدل اورمآخذالشرائع مشہور ہیں۔امام ابوحنیفہ ؒکے رسالے ’’الفقہ الاکبر‘‘کی شرح بھی لکھی ۔
’’کتاب التوحید‘‘ ان کی علمی عبقریت ،معقولات میں ان کی غیرمعمولی مہارت اور اسلامی فرقوں کے علاوہ دیگرادیان کے اصول وفروع سے ان کی گہری واقفیت کاثبو ت ہے۔اس میں انہوںنے ثابت کیاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ان تصورات واوہام سے بلند وبالاہے جن میں دہریے، بت پرست، مجوسی اورنصرانی مبتلا ہیں۔اسی طرح اس میں معتزلہ اور قدریہ کے خیالات کی بھی تردید ہے ۔ابن راوندی جیسے فلسفیوں کے خیالات کا پردہ بھی چاک کیا گیا ہے۔ (یہ کتاب ڈاکٹر فتح اللہ خلیف کی تحقیق کے ساتھ دارالجامعات المصریہ اسکندریہ سے شایع ہوچکی ہے۔)
ابومنصورماتریدی حنفی المسلک تھے اوروسطِ ایشیا،خراسان اورہندوستان میں فقہِ حنفی ہی رائج تھی، اس لیے ان کاعلمِ کلام زیادہ تراحناف میں مقبول ہوا۔آج بھی احناف اعتقادی اوراصولی لحاظ سے ماتریدی کہلاتے ہیں۔
اس دورمیںعلماء نے صحابہ کرام کے حالات پر تالیفات کا سلسلہ بھی شروع کیا۔شامی محدث خیثمہ بن سلیمان (۲۵۰ھ۔ ۳۴۳ھ) نے ’’فضائل الصحابہ‘‘ تصنیف کی۔بغدادکے محدث ابن خنب بخاری (۲۶۶ھ۔۳۵۰ھ)نے ’’فضائل علی‘‘کے عنوان سے ایک رسالہ لکھا۔ایک اورعالم عبدالواحد بغدادی( ۲۶۱ھ۔۳۴۵ھ)نے ’’جزء فضائل معاویہ ‘‘ تالیف کیا۔ اس موضوع پر یہ پہلی کاوش تھی اس لیے عبدالواحد بغدادی اپنی مجلس میں آنے والے ہرشخص کویہ رسالہ ضرورسناتے۔
اس دورمیں علم حدیث پر بھی کام ہوا۔فلسطین کے شہرطبریہ سے تعلق رکھنے والے شامی محدث ابوالقاسم الطبرانی( ۲۶۰ھ ۔۳۶۰ھ)نے المعجم الکبیر،المعجم الاوسط اورالمعجم الصغیر جیسے قیمتی ذخائرِ حدیث پیش کیے۔ابویعلیٰ موصلی (۲۱۱ھ ۔۳۰۷ھ) نے تیرہ جلدوں میں’’مسند ابی یعلی ‘‘مرتب کی جس نے تمام علمی حلقوں سے دادوصول کی۔ (سیر اعلام: ۱۶ ص۲۳،۱۱۹)
اسی دورمیں مشہور مؤرخ ابن جریر طبری(۲۲۴۔۳۱۰ھ) نے بغداد میں اپنی مشہورتاریخ ’’تاریخ الرسل وامم ‘‘مرتب کی جو سابقہ تمام تاریخی رسائل اورکتب کی جامع تھی۔
بعض علمائے کرام نے دربارِ خلافت سے رابطہ رکھا اورکوشش کرتے رہے کہ وہاں قرآن وسنت کے علوم زندہ رہیں ۔ان میں شیخ ابن ابی الدنیا بغدادی( م ۲۸۱ھ) کا نام نامی سرِ فہرست ہے۔وہ بغداد کے نامور واعظ،مصلح اور مصنف تھے۔ انہوںنے مختلف موضوعات پر ۱۶۴ کتب لکھیں جن میں سے بیشتر آج بھی موجودہیں۔ان کتب کی خصوصیت ان کااختصاراورجامعیت ہے۔اس کے ساتھ یہ عام فہم بھی ہیں۔معاشرے کی برائیوں پر ان کی خاص نگاہ تھی اس لیے الگ الگ منکرات پرانہوںنے الگ الگ تالیفات پیش کیں۔ مثلاً غیبت کی مذمت میں’’ ذم الغیبۃ‘‘ جھوٹ کے خلاف’’ذم الکذب‘‘ نشے کے نقصانات کے بارے میں ’’ذم المسکر‘‘اور گانے بجانے کی خرابیوں سے آگاہ کرنے کے لیے ’’ ذم الملاہی‘‘لکھیں۔ اسی طرح رمضان کے اجروثواب پر ’’فضائل رمضان ‘‘جنت کاشوق دلانے کے لیے ’’ صفۃ الجنۃ‘‘اخلاقیا ت پر’’مداراۃ الناس‘‘اور’’مکارم الاخلاق‘‘ اورشیطان کی چالوں سے خبردارکرنے کے لیے ’’مکائد الشیطان‘‘ لکھیں۔ ہر کتاب اپنی جگہ بے نظیرہے۔ اپنی ان علمی عملی اورادبی خوبیوں کی وجہ سے وہ خلفاء کی اولاد کے استاذمقررہوئے اورمستقبل کے کئی خلفاء ان کی تربیت میں پلے بڑھے۔
بغداد کے مشہور عالم ابوبکر ابن الانباری (۲۷۱ھ ۔۳۲۸ھ)کا نام بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔وہ عالم ومحدث ہونے کے ساتھ ادیب اورماہرِ لغت بھی تھے۔قرآن مجید کے الفاظ وتراکیب کے لیے انہیں شعروادب کے ذخائر میں سے تین لاکھ مثالیں یادتھیں۔’’ایضاح الوقف والابتداء فی کتاب اللہ ‘‘اور’’عجائب علوم القرآن‘‘ سے ان کے علمی مقام کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ا نہیں خلیفہ راضی باللہ کے محل میں شہزادوں کوتعلیم دینے کاموقع ملا۔
ان علماء میں علی بن عیسیٰ الجراح کانام نامی بھی قابلِ ذکر ہے ۔وہ ایک نامور محدث،فقیہ اورسیاست دان تھے۔دربارِ خلافت میں ان کے مقام کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ مقتدرعباسی اورقاہر عباسی کے دورمیں متعدد بار وزیر بنائے گئے۔انہوںنے ۹۰ سال عمر پائی اورخلیفہ متقی للہ کے دورمیں ۳۳۴ھ میں وفات پائی ۔ حافظ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ وزراء میں ان کی حیثیت ایسی تھی جیسے خلفاء میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی ۔
یہ کچھ علمائے دین کے حالات بطورِ نمونہ ذکرکردیے گئے ہیں ورنہ اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ اہلِ ذوق حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی سیراعلام النبلاء کامطالعہ کرسکتے ہیں۔بہرکیف دولتِ عباسیہ کے دورزوال میں یہ کام مسلسل ہوتارہا ،یہاں تک کہ پانچویں اورچھٹی صدی ہجری میں ایک بارپھر عروج وغلبے کے آثار واضح ہوگئے۔ان حضرات کی کوششوں نے عالم اسلام کوایک خطرناک اعتقادی ونظریاتی سیلاب میں بہنے سے بچالیا۔ ایسی کوششوں کی ضرورت آج بھی ہے اورجو حضرات کسی مدرسے ، کسی مسجد،کسی دارالافتاء یا کسی تصنیفی وتحقیقی مرکزمیں دین کی حفاظت کاکام کررہے ہیں ،ان کی حیثیت وہی ہے جو ماضی کے ان علمائے حق کی تھی ۔اللہ ہم سب کواخلاص کے ساتھ دین کی خدمت میں لگائے رکھے۔آمین