مولانامحمد اسماعیل ریحان
رمضان آنے کو ہے ۔ زیادہ وقت نہیں رہ گیاہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کاانتظار اہلِ ایمان کو سارا سال رہتاہے۔کیونکہ اس ماہ میں نیکیوں کا صلہ بڑھ جاتاہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نفل کاثواب فرض کے برابر ملتاہے اورفرض کااجرسترگنا زیادہ کردیاجاتاہے۔ ایمان والوں کی زندگی کامقصد ہی آخرت کی تیاری ہے۔ زندگی راہ گزر ہے،منزل نہیں ۔یہاں سے جاتے وقت صرف اعمال کاتوشہ ساتھ جاتاہے۔ یہی توشہ اصل منزل پر کام آتاہے۔جس نے یہاں تیاری نہ کی ،وہاں اسے بڑی پریشانی ہوگی۔
عمر بن عبدالعزیز اپنے دورِ وزارت میں خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے ساتھ سفر پر تھے۔ ایک جگہ پڑاؤطے ہوا،اورسمجھ دارلوگوںنے فوراً اپنے خیمے ڈیرے اورمال واسباب وہاں پہنچادیا۔عمربن عبدالعزیز خلیفہ کے ساتھ جب وہاں پہنچے تودیکھا کہ جن لوگوںنے اپنے سامان پہلے بھیج دیاتھا،وہ سواریوں سے اترتے ہی خیمے گاڑنے ،بستر لگانے اورآرام میں مشغول ہوگئے۔ جن لوگوںنے اس طرف توجہ نہیں دی تھی ،وہ حیران وپریشان کھڑے تھے ۔نیند اورتھکن سے ان کابراحال تھامگر باربرداری کے جن جانوروں پرا ن کاسامان لداہواتھا،وہ ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔
عمر بن عبدالعزیز یہ منظر دیکھ کر رونے لگے۔وجہ پوچھی گئی توفرمایا:
’’آخرت میں بھی یہی ہوگا ۔جو پہلے تیاری کرکے اپناسامان بھیج دے گا،اسے وہاں پہنچتے ہی راحت ملناشروع ہوجائے گی۔ جو اس میں کوتاہی کرے گا،وہاں بھی حیران وپریشان ہوگا۔‘‘
اللہ ،رسول اورآخرت پرایمان لانے والے ہر مرحلے پر اپنی منزل کودیکھتے ہیں۔اسے دیکھ کر ہرقدم اٹھاتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر کام وہاں کی تیاری کاسبب بن جائے۔ وہاں کے بنک اکاؤنٹ میں اضافہ ہوجائے۔ امتحان وابتلاء میں یہی چیزیں کام آئیں گی۔
رمضان کامہینہ ان حضرات کے لیے نیکیوں کا’’سیزن ‘‘ ہوتاہے۔ وہ دوتین ہفتے پہلے سے رمضان کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اپنے کاموں کوسمیٹتے ہیں تاکہ رمضان کے معمولات میں کوئی خلل نہ آئے۔ جہاں کہیں آناجاناہو،وہاں پہلے ہی چکر لگالیتے ہیں۔ جو چیزیں مہینہ بھر کی خریداری سے متعلق ہوں ،ان کامناسب ذخیرہ پہلے کرلیتے ہیں،تاکہ رمضان میں ایک ایک چیزکے لیے وقت ضایع نہ ہو۔ ایسے بزرگ بھی دیکھے ہیں جو بچوں کے لیے عید کی ضروری خریداری بھی شعبا ن میں کرلیتے ہیں اورعید کے کپڑے وغیرہ بھی پہلے سلوالیتے ہیں تاکہ رمضان کو پوری طرح وصول کیاجاسکے۔یہی وہ لوگ ہیں جو رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لیے بھی خودکوفارغ کرسکتے ہیں اوررمضان کی رحمت ،مغفرت اورخلاصی ازجہنم کے وعدوں سے پوری طرح مستفید ہوتے ہیں۔انہی کارمضان حقیقی رمضان ہوتاہے اورانہی کی عید حقیقت میں عید کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔
مگر دوسری طر ف ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کے نزدیک رمضان دنیا کمانے کاسیزن ہوتاہے۔ یہ لوگ بھی ساراسال رمضان کے منتظر رہتے ہیں مگر اس لیے نہیں کہ روزے اورتراویح کالطف اٹھائیں گے ، گناہ بخشوائیں گے اورنیکی کے کاموں میں سبقت کریں گے۔ بلکہ ان کے لیے یہ لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا ایک حربہ ہوتاہے۔
چنانچہ جوںہی رمضان قریب آتاہے ،کھانے پینے کی چیزوں کی قیمت ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔بجائے اس کے کہ روزہ داروں کوکوئی ریلیف دیاجاتا،ان پر گرمی اورلوڈشیڈنگ کے ساتھ مہنگائی کاکوڑابھی برسنے کوتیار ہوتاہے۔ رمضان میں پکوڑوں کارواج زیادہ ہوتاہے ، بیسن کی قیمت ۱۱۵ سے ۱۳۵ پر پہنچ گئی ہے۔خوردنی تیل کی قیمت ۱۴۵روپے لٹر سے ۱۷۰کو چھور ہی ہے۔شربت اورچائے کے لیے چینی زیادہ درکارہوتی ہے۔ اسے بھی تین چار روپے مہنگا کردیاگیاہے۔رمضان میں بیکری کی چیزیںبھی زیادہ استعمال ہوتی ہیں خصوصاً افطار میں ۔ ان کے تقریبا ً ہر مقبول آئٹم میں پانچ سے بیس روپے تک اضافہ ہوگیاہے۔یہ توفقط ایک جھلک ہے ۔آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا۔اگر یہی روش رہی تو رمضان میں سحر وافطار کی چیزیں صرف متمول طبقے کی دستر س میں ہوں گی اورغریب عوام سخت گرمی کاروزہ گزارکر پانی پرگزاراکریں گے۔
اس المیے میںصرف خوردہ فروشوںقابلِ الزام نہیں۔ یقینا ان میں ایسے لوگ بکثرت ہیں جو بازارکے عام ریٹ سے زیادہ قیمت لگاکر ناجائز نفع وصول کرتے ہیں ،یا چیز دونمبری دیتے ہیں مگر قیمت پوری وصول کرتے ہیں،یاناپ تول میں ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ناجائز منافع خوری کی ایسی بہت سی صورتیں ہیں جن میں یہ لوگ ملوث ہیں۔
مگر بہت سے تاجرایسے بھی ہیں جو ایک پیسہ بھی زائد لینا حرام سمجھتے ہیں ۔وہ صحیح مال صحیح قیمت پر فروخت کرتے ہیں ۔مگر ظاہر ہے انہیں بھی تجارت کرنی ہے ،اس لیے معروف شرح کے مطابق وہ تھوڑا سانفع بھی رکھتے ہیں ۔اس کے باوجود جب مہنگائی کی لہر آتی ہے تووہ بھی نئے ریٹ کے مطابق مال فروخت کرتے ہیں کیونکہ انہیں ہول سیلر سے مہنگے دام پر ہی مال مل رہاہوتاہے۔اس پورے سلسلے میں یہ درمیانے واسطے مجرم نہیں ہوتے جو قیمت کے گھٹنے بڑھنے کے دوران محض معروف شرح پر نفع لے رہے ہوتے ہیں بلکہ اصل مجرم وہ بڑے بڑے منافع خورہوتے ہیں جو ایسے مواقع پر اجناس کے اسٹاک اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اورسستے دامو ں ملنے والا مال ،غیرمعمولی طورپر مہنگا کرکے پوری قوم کو لوٹتے ہیں اورصرف ایک سیزن میں اربوں روپے بٹورلیتے ہیں۔ ان کے محل اوربنگلے دوسے چاراورچار سے آٹھ بن جاتے ہیں ۔نماز روز ے کی انہیں کیافکر کہ انہیں رمضان میں بھی منافع خوری سے مطلب ہے۔اوراگر رسمی طورپرانہوںنے پیشانی جھکابھی دی اوردن بھوکار ہ کرگزاربھی لیاتو صوم وصلوٰۃ کامقصد کہاں حاصل ہواجب سحر ی بھی حرام کی تھی اورافطاری بھی ۔ قرآنی ارشاد کے مطابق حقیقی نماز توو ہ ہے جو بے حیائی اورمعصیت سے روک دے۔فرمانِ نبوی کے مطابق روز ہ مؤمن کے لیے ڈھال کی مانند ہے ،یعنی اسے گناہوں سے بچانے کاذریعہ ہے۔مگر یہ کیسی بے حسی ہے کہ یہ اعمال کرکے بھی کوئی حرام خوری نہ چھوڑے اورعوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹے۔مزید ستم یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی محلات میں اسی کمائی سے افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں اوربزعمِ خود دین ودنیا دونوں میں بیڑاپارسمجھ لیاجاتاہے۔
اس وقت ملک کی آبادی اٹھارہ کروڑ سے متجاوز ہے جس میں بارہ کروڑ سے زائد لوگ غربت کاشکار ہیں ۔ان میں بہت بڑی تعداد فقر وفاقہ کاشکار اوربے گھر ہے۔ تمام مصائب اورتکالیف کے باوجودیہی لوگ روزے اورنماز کے زیادہ پابند ہیں ۔حکومت ان بارہ کروڑ لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ حکومت شکایتی دفاتر بھی بناتی ہے مگرا ن میں اوّل تو کوئی اہلکار ہوتانہیں ۔اگر مل بھی جائے تو کچھ کہنالاحاصل ہوتاہے۔ ایسالگتاہے کہ وہ بھی منافع خوروں سے حصہ وصول کرکے مطمئن ہوں۔
رمضان سے پہلے پہلے ناجائز منافع خوروں کے خلاف ایک سخت آپریشن ناگزیر ہے۔ یہ آپریشن ریڑھی اوردکانوں والوں تک محدودنہ ہوبلکہ ان سے کہیں زیادہ اس کاہد ف وہ بڑے مگرمچھ ہوں جو مہنگائی کی اصل وجہ اورحرام خور ی کے سرغنہ ہیں۔ ملک میں اس وقت احتساب کی آواز لگ رہی ہے۔مگر یہ صرف آف شور کمپنیوں تک کیوں محدودہو۔ وہ توبہرحال ایک قابلِ بحث معاملہ ہے ۔ مگریہ ظلم عوام پر کھلے عام ہورہاہے اورایک خوردہ فروش سے لے کر اسٹاک ایکس چینج کے بادشاہوں تک سب اس حمام میں برہنہ نہارہے ہیں ،انہیں کون پوچھے گا۔؟ حکومت پر براوقت سب کو دکھائی دے رہاہے جس سے بچنے کے لیے کوئی ایسا اچھاعمل ضروری ہے کہ عوام کی دعائیںشامل حال ہوجائیں۔