طریقہ تعاون

  پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟

مولانامحمداسماعیل ریحان

20جنوری کی صبح چارسدہ کی باچا خان یونی ورسٹی پرحملہ ہوا۔ ایک پروفیسر سمیت20افراد کے جاں بحق اور20کے زخمی ہونے کی خبر سے پورے ملک میں خوف ودہشت کی لہر دوڑ گئی۔خاص کر کالجوں اوریونی ورسٹیوں میں شدیدعدم تحفظ پایاجارہاہے۔لگ بھگ تیرہ ماہ پہلے آرمی کالج پشاورپر حملے نے  تعلیمی اداروں کے محفوظ ہونے کے حوالے سے جو سوالیہ نشانات پیداکیے تھے، ایک سال بعد وہ زیادہ شدت کے ساتھ ابھر آئے ہیں۔

اس  حادثے کے  چندپہلو ،نہایت قابلِ توجہ ہیں۔

پہلامعاملہ ہے پاکستان میں عصری تعلیمی اداروں کے تحفظ کا،جوبلاشبہ بے حد اہم ہے اورحکومت کو ترجیحی بنیادوںپراس کی طرف متوجہ ہوناچاہیے ۔یہ بات بھی درست ہے کہ حکومتی وسائل بہرحال محدود ہیں اورعصری تعلیمی اداروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان سب کوسیکورٹی فراہم کرنا شاید حکومت کے بس میں نہ ہو۔ اس کے باوجود جو کچھ ممکن ہو،اس میں دریغ نہیں کرناچاہیے۔

یہاں ہم اچھی طرح واضح کردیناچاہتے ہیں کہ عصری تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کانشانہ بناناکوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ اس کے پسِ پردہ دومذموم ترین مقاصد کارفرماہیں۔

پہلا مقصد پاکستان کے تعلیمی اداروں، خاص کرمعیاراورساکھ کے حوالے سے نمایاں اداروں میں دہشت کاایساماحول پھیلاناہے کہ پاکستانی بچے اور نوجوان ایسے اداروں میں داخلہ لیتے ہوئے ڈریں۔ ظاہر ہے جان کاتحفظ انسان کی فطری ضرورت ہے ،جہاں یہ میسر نہ ہو،انسان طبعی طورپروہاں سے عقب نشینی اختیارکرلیتاہے۔ اگر یہ خوف ودہشت عام ہوجائے تواس کانتیجہ اس کے سواکیانکل سکتاہے کہ پاکستان جو تعلیمی لحاظ سے پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے ہے ،اس میدان میںمزید قحط الرجال کاشکارہوجائے۔یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں آج علوم وفنون میںمسابقت کی وجہ سے ہی سیاسی ،معاشی ،اقتصادی اورعسکری لحاظ سے بام عروج پر پہنچی ہیں۔ پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کواس میدان میں ایک بہت بڑاچیلنج درپیش ہے ۔ اچھے اورمعیاری تعلیمی ادارے ہی اس بحران کو دور کرسکتے ہیں اوریہیں سے ایسے رجالِ کارنکل سکتے ہیں جواس چیلنج سے عہدہ برآہوسکیں۔ اگر ان اداروںکاماحول ہی دہشت زدہ ہوجائے تووہاں کیا پڑھائی ہوگی اور وہاں سے پاکستانی قوم کو کیا پیداوارملے گی۔ہمارادشمن یہی چاہتاہے کہ پاک سرزمین علوم وفنون میں بالکل بانجھ ہوجائے اوراس کے حریف اسے آسانی سے پچھاڑسکیں۔

٭

عصری تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کے پیچھے ایک اورنہایت مکروہ سازش بھی کام کررہی ہے وہ یہ کہ ایسی ناپاک کارستانیوں کے ذریعے پاکستان میں دین دار طبقے کے خلاف فضا عام کی جائے ۔ آرمی پبلک اسکول اورباچاخان یونی ورسٹی پر حملے میں یہ بات مشترک ہے کہ حملہ آورگروہ بظاہر اسلام پسندی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے دشمن کواس کی کیا ضرورت تھی؟ ان اداروں پر حملے کے لیے ایسے ہی لوگوں کوکیوں استعمال کیاگیاہے ؟اس سوال کاجواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو استعمال کیے بغیر ،اپنااصل سراغ چھپانااوررائے عامہ کو دین دارطبقے سے متنفر کرنا ممکن نہیں تھا۔ انہیں استعما ل کرکے ہمارادشمن خود کوپوری طرح کیموفلاج کرلیتاہے اوررائے عامہ کی نفرت کارُخ ،مولوی ، مُلّا،مدرسے اورمسجد کی طرف موڑدیتاہے۔ ایسے میں ہر ظاہر بین شخص مذہبی طبقے سے بیزاردکھائی دیتاہے۔ ایک کہتاہے کہ اس کے پیچھے فلاں مُلّاکے گرو ہ کاہاتھ ہے۔ دوسراکہتاہے کہ مولوی تومدرسوں میں یہی کچھ سکھاتے ہیں۔بعض جگہ توبات بڑھ کرسیدھی اسلام پر اعتراض تک چلی جاتی ہے۔حالانکہ اسلام امن کامذہب ہے۔اسلام غیرمسلم شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کابھی حکم دیتاہے چہ جائیکہ اس میں کلمہ پڑھنے والے بچوں ،بچیوں اورنوجوانوں کاخون بہانے کی کوئی گنجائش ہو۔

پاکستانی قیادت ،سیاست دانوں ،صحافیوں ،کالجز اوریونی ورسٹیز کے طلبہ وطالبات سے گزارش ہے کہ دشمن کی اس چال کوسمجھیں ۔اپنے دین اوردین پر چلنے والوں کے بارے میں کسی شک وشبہے کاشکار نہ ہوں۔ علماء اورمدارس سے بداعتمادی کاجواز توتب ہوتا،جب خدانخواستہ ان کی طرف سے ایسے مظالم کی حمایت ہوتی۔ علمائے کرام ایسے واقعات کی پہلے بھی مذمت کرتے رہے ہیں اوراب بھی کررہے ہیں ۔وہ واضح طورپرکہہ رہے ہیں یہ واقعہ مسلمانانِ پاکستان کی غیرت وحمیت پرایک تازیانہ ہے اوریہ کہ ایسے گھناؤنے کاموں کااسلام سے کوئی تعلق ہرگزنہیں۔

٭

اب سوال یہ ہے کہ اس خطے میں ہمارااصل دشمن کون ہے ؟تواہلِ نظر کے نزدیک اس کاجواب واضح ہے۔ اب تک موصولہ خبروں کے مطابق حملہ آوروں کے نشاناتِ قدم افغانستان تک جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ افغان حکومت ،پاکستان کے لیے مخلص نہیں اورپاک سرزمین کے دشمنوں کو پناہ گاہیں اورتربیت گاہیں فراہم کرنے کاسلسلہ اس کی سرپرستی میں اب بھی جاری ہے۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ خطے میں افغان حکومت کاسب سے گہرارشتہ ،بھارت کے ساتھ استوارہے جس میں روزبروز پختگی آرہی ہے۔بھارتی وزیراعظم مسٹر موڈی نے گزشتہ ماہ کابل کا دورہ کرکے واپسی پر لاہورمیں وزیراعظم پاکستان سے مختصرسی ملاقات کے ذریعے درحقیقت بین السطور یہی پیغام د یاتھاکہ بھارت افغانستان میں موجودہے اوررہے گا،اوریہ کہ وہاں بھارتی اثرو رسوخ ختم کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔

افغانستان کے ذریعے پاکستان کی مغربی سرحدوں کوگھیرنے کی بھارتی کوششوںکواگر عالمی منظرنامے کے حوالے سے دیکھاجائے تو اس وقت عالمی طاقتوں کاایجنڈا ،دو مسلم ممالک کو ترجیحی بنیادوںپرنرغے میں لینے کا ہے۔ایک سعودی عرب جو ہماراایمانی وروحانی مرکز ہے ۔ اس پرامن ملک کے چاروں طرف خانہ جنگی کی آگ لگاکراسے بالکل غیرمحفوظ کردیاگیاہے۔ عراق ،شام،یمن ، بحرین اورخلیجِ فارس سمیت کوئی سمت ایسی نہیں جہاں سے سعودی عرب کو کوئی خطرہ نہ ہواورجہاں اسے کوئی مددگار میسر آسکتاہو۔

پاکستان کوبھی ،رفتہ رفتہ اسی مقام پر لایاجاچکاہے ۔پاکستان کی ہمدرد طالبان اسلامی امارت کی جگہ بھارت نوازافغان حکومت کوسامنے لانا ،ایک سوچاسمجھا منصوبہ تھا۔ایران سے پاکستان کے تعلقات خراب کرکے دونوں ملکوں کوحالتِ جنگ تک پہنچانے کی سازش بھی ایک مدت سے جاری ہے۔ بھارت کے ساتھ طویل بحری وبری سرحدتو ہے ہی محاذ جنگ۔اسی لیے پاکستان کواپنی افواج کا بڑا حصہ ہر وقت بھارتی سرحدوں پر چوکس رکھنا پڑتاہے۔ ہاں اگرپاکستان کوکوئی اس خطے میں کوئی معاون میسر ہے تووہ چین ہے جو اپنے تجارتی،سیاسی ،عسکری اور تزویراتی مفادات کے لیے پاکستان سے تعلق کو مفید تر خیال کرتاہے۔اس وقت پاکستان اورچین کے درمیان اقتصادی راہداری پر جو پیش رفت ہورہی ہے ، اس کے حوالے سے پاکستان چین کے لیے اوربھی اہم ہوگیاہے ۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات کے ذریعے پاکستان کو ایک جنگ زدہ علاقہ ثابت کرکے ہمارا دشمن چین سے ہمارے اقتصادی معاہد ے پر بھی ضرب لگاناچاہتاہے۔

یہ وقت ہماری قیادت ،ہماری سرحدوں کے رکھوالوں اورقانون کے محافظوں ہی کے لیے نہیں ،پوری قوم کے لیے ان کی دانش اورحقیقت بینی کے امتحان کاہے۔ اللہ کی مدد اورعنایت کے بغیر ہم اس امتحان میںسرخ رونہیں ہوسکتے۔ اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہوکر ہر لحظہ توفیقِ خیر کی دعاکرنی چاہیے۔

٭٭

عنوانات

پر اشتراک کریں

حالیہ مضامین

  پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟

آگئی چھٹیاں

پاک بھارت تعلقات

کشمیر کاالمیہ