مولانامحمداسماعیل ریحان
۷جولائی ۲۰۱۵ء کو روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر ’’ہمارے افسانہ سازمؤرخین ‘‘ کے عنوان سے مشہورکالم نگارجناب اوریامقبول جان کاایک کالم شایع ہواجس میں مشہور مؤرخ علامہ ابن جریرطبری رحمہ اللہ کی دل کھول کر کردارکشی کی گئی اوران کی مشہور ومعروف تاریخ کو بڑے شد ومد سے ہدف ِ تنقید بنایاگیا۔اسلامی تاریخ راقم کااوڑھنا بچھونا ہے ۔طبری ،البدایہ والنہایہ اور تاریخ ابن خلدون جیسی درجنوں کتب اکثر زیرِ مطالعہ رہتی ہیں۔ اس لیے راقم پور ے وثوق سے عرض کرنے کے قابل ہے کہ ہمارے محترم و ذی وقار صحافی ،نادانستہ طورپرماضی کے مؤرخین سے کہیں زیادہ افسانہ سازی کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ جناب خورشید ندیم نے فاضل صحافی کے کالم کے بعض پہلوؤوںکا جواب دیاہے تاہم بعض سوال تشنہ رہ جاتے ہیں مثلاً یہ کہ کیا وہ معتزلی تھے؟کیا وہ درباری عالم اور امام احمد بن حنبل کے مخالف تھے؟ کیا انہوںنے اپنی روایات کی کوئی سند نہیں دی؟
حقائق کی دنیا میں یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں۔ امام طبری مسلمانوں کے کے مشہور فقیہہ ومجتہد تھے۔ بعض فروعی مسائل میں ان کاامام احمد بن حنبل سے اختلاف ثابت ہوجائے تو عجب نہیں جیساکہ حنفی شافعی اورمالکی علماء کوبھی حنبلیوں سے کئی مسائل میں اختلاف ہے۔مگر جہاں تک عقیدے کاتعلق ہے،اس میں امام ابن جریرطبری ؒ ،امام احمد بن حنبل اورجمہور علمائے امت کے شانہ بشانہ تھے۔ اوریاصاحب نے قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدے کے خلاف امام احمد بن حنبل کی جدوجہد کاحوالہ دے کر ،اگلی سطور میں امام طبری کوان کاواحد مخالف قراردیتے ہوئے فرمایاہے :’’اسلامی تاریخ میں امام احمد بن حنبل کاواحد ناقد اورمخالف محمد بن جریرالطبری نظر آتاہے۔‘‘
یہ بھی فرمایاہے :’’اس کے خیالات عباسی خلفاء کے معتزلی خیالات سے ہم آہنگ ہوتے چلے گئے۔‘‘
یہ بالکل بے بنیاد دعویٰ ہے۔ابن جریرطبری ؒ ہرگزمعتزلی نہیںتھے۔وہ جمہورعلماء کے ساتھ تھے۔ معتزلی عقائد کے خلاف انہوںنے جو کام کیا وہ اتنا ٹھوس تھاکہ عالم اسلام کے تمام علماء انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ معتزلہ ،قرآن مجید کومخلوق مانتے تھے۔ امام طبری ؒ نے قرآن وسنتِ نبویہ سے ثابت شدہ عقائد کی وکالت کرتے ہوئے انہیں منہ توڑ جوابات دیے۔ اپنی مایہ ناز کتابوں’’صریح السنۃ ‘‘ اور’’معالم اصول الدین ‘‘ میں انہوںنے خلقِ قرآن، رؤیت ِ باری تعالیٰ اورعذاب ِ قبر جیسے مسائل پر معتزلی عقائد کی پر زور تردید کی اوریہ بھی لکھا:’’جو ہم سے اس کے خلاف عقیدہ نقل کرے یا منسوب کرے یادعویٰ کرے کہ ہم اس کے سواکچھ کہتے ہیں تو اس پر اللہ کی لعنت اورغضب نازل ہو۔اللہ اسے سب کے سامنے رُسواکرے۔‘‘{صریح السنۃ :ص ۱۸،مطبوعہ دارالخلفاء، کویت}
اسلامی شخصیات کے متعلق حافظ ابن کثیر، علامہ ذہبی،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے بڑھ کرنقدونظرکس کی ہوسکتی ہے۔یہ سب ابن جریرؒ کے مداح ہیں۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وہ علماء کے امام تھے۔ان کے قول پرفیصلہ ہوتاتھا۔ان کے علم وفضل کے باعث ان کی رائے کی طرف رجوع کیاجاتاتھا۔‘‘{البدایۃ والنہایۃ:ج۱۴ص ۸۴۶}
علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں:’’محمد بن جریر بن یزیدنامور امام ،مجتہد،اپنے دورکے علامہ تھے۔علم ،ذہانت اور تصنیفی کام کی کثرت میں وہ اپنے زمانے کے یکتافرد تھے۔آنکھوںنے ان جیساکم ہی دیکھا ہوگا ۔ ‘‘ {سیراعلام النبلاء:ج۱۱ص ۱۶۵}
حافظ ابن حجر ؒ سخت تنقیدی وتحقیقی مزاج رکھنے کے باوجود ،ابن جریر طبری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وہ علوم پرحاوی ہونے کے لحاظ سے اپنے دورمیں بے نظیر تھے۔ کتاب اللہ کے حافظ،علم قرآت کے ماہر، تفسیر پر نگاہ رکھنے والے،احکام کے فقیہہ ،سنت کے عالم ، صحیح وضعیف اورناسخ ومنسوخ روایات سے واقف اورصحابہ کرام کے اقوال وحالات سے باخبرتھے۔‘‘{لسان المیزان :ج۵ص۱۰۲}
قارئین!خود غورفرمالیں کہ ان جلیل القدرائمہ کے مقابلے میں اوریاصاحب کی رائے کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شخصیت جسے ہمارے محترم کالم نگار نے ایک افسانہ طراز اور داستان گو سمجھ کر نہایت عامیانہ انداز میں پیش کیاہے،مؤرخ بعد میں اورفقیہہ ومحدث پہلے تھی۔اپنے دورمیں انہیں اہل سنت کے مجتہد،محدث اورمفسرکی حیثیت سے ہی پہچاناجاتاتھا۔وفات تک وہ مؤرخ کی حیثیت سے مشہور نہیں تھے۔وجہ یہ تھی کہ ان کااصل کام قرآن وحدیث اورفقہ کی تعلیم تھا۔تاریخی روایات کا جمع کرناان کاجزء وقتی مشغلہ تھا ۔ان کی وفات کے بعد یہ مجموعہ ’’تاریخ الرسل والملوک ‘‘ کے عنوان سے سامنے آیااوریوں وہ مؤرخ کی حیثیت سے بھی جانے گئے۔اس تاریخ کے اردو،انگریزی اوردیگرزبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں،اس لیے دورِحاضر میںانہیںفقط مؤرخ سمجھا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مؤرخ ہونے کی حیثیت سے بھی بڑے وسیع النظر تھے۔کالم نگار کاان کی تاریخ کو بے اصل قراردیتے ہوئے یہ فرمانا کہ’’ ان قصوں کی نہ تو وہ کوئی سند دیتے ہیں اورنہ ہی ان کے پاس ان کے ماخذ کا کوئی علم ہے‘‘بالکل غلط ہے۔تاریخ طبری اٹھاکردیکھ لیں ، احادیث کی طرح ہر روایت کی سند ملے گی۔
ان کی تاریخ کی شہرت مستشرقین کی محتاج نہیں رہی ،وہ پہلے ہی سے مسلم مؤرخین کے ہاں ایسی مشہور تھی جیسے محدثین کے ہاں بخاری و مسلم۔ ابن جریرکے بعدمسلمانوں میں تاریخ کی تینکتب سب سے زیادہ جامع اور مشہور ہیں اور آج تک مسلمانوں کے حالات کے لیے انہی کاحوالہ دیا جاتا ہے ۔ البدایہ والنہایہ ،الکامل فی التاریخ اورتاریخ ابن خلدون ۔ان تینوں کتب میںآدم علیہ السلام سے لے کر عباسیوں کے دورِ زوال تک کی تقریباً ساری تاریخ ،طبری ہی کی روایات سے منقول ہے۔اگر طبری کو نکال دیں تواسلامی تاریخ میںباقی کیا بچے گا؟ہم تاریخی روایات کی تحقیق اورتنقیح سے انکار نہیں کررہے مگر بیک جنبش قلم ایک بنیادی مأخذ کو سراسرمسترد کردینااورایک عظیم ہستی کو بدنا م کرنا کونسی علمی واخلاقی روایت ہے؟
۱وریا صاحب نامورصحافی اورمحقق ہیں ۔راقم کے بھی ممدوح ہیں ۔انہیں حق ہے کہ تنقید کریں مگر انہیں اپنے تحقیقاتی دعووں کا کوئی ثبوت تودیناچاہیے۔ افسوس کہ پورے کالم میں وہ ایک بھی حوالہ نہیں دے پائے۔اگر یہ انکشافات منامی یاالہامی نہیں توان کے ذمے ہے کہ راقم کے اس مضمون کے جواب میں اپنی معلومات کاکوئی ایسا مستندحوالہ پیش کریں جسے حافظ ابن حجر ؒ ،حافظ ذہبی اورحافظ ابن کثیر جیسے اماموں کی رائے سے زیادہ وزنی سمجھاجاسکے۔اوریاصاحب اپنے دفاع میں شاید اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکیں کہ میں نے فلاں فلاں جگہ جیسا لکھا ہوا دیکھا ویساہی نقل کردیا ،تحقیق کی ذمہ داری مجھ پر نہیں تھی۔ایسے میں سوال ہوگاکہ ابن جریر طبری نے بھی تویہی کیا ۔انہوںنے توپھر بھی ہر روایت کی مکمل سند بیان کی ہے۔محترم کالم نگار نے تواپنی معلومات کاکوئی حوالہ تک نہیں دیا۔اب وہ خودبتائیںکہ افسانہ ساز کون ہے؟