طریقہ تعاون

حمیت نام تھا جس کا

مولانا اسماعیل ریحان صاحب مدظلہ العالی

    کائنات کا محورانسانی معاشرہ ہے ۔اللہ نے تمام نعمتیں اس کی خاطر پیداکی ہیں۔انسانی معاشرے کی دواکائیاں ہیں ،مرد اورعورت۔ عورت کواس کی خاص ہیئت ِ ترکیبی کے باعث صنف ِ نازک   کہا جاتاہے۔ اللہ نے اپنی آسمانی کتاب میں اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں عورت کوجو عظمت بخشی ہے اسی کی بدولت آج تک معاشرے میں اخلا قی اقداراورشرافت کی خُو بُو باقی ہے۔ ہم آخری امت ہیں اورہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاصنفِ نازک سے سلوک ایسامشفقانہ تھا کہ حاتم طائی کی بیٹی حالتِ کفر میں آپ کے پاس آتی ہے توآپ اس کی بھی عزت افزائی فرماتے ہیں۔ آپ کاارشادہے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھے ہیں۔آپ یہ بھی گوارا نہیں فرماتے کہ عورتوں کی موجودگی میں سواری تیز چلائی جائے اورانہیں کوئی دھچکہ لگ جائے۔ آپ نے اونٹوں کے حدی خوان کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’رویدک یاانجشۃ ! رفقاً بالقواریر۔‘‘اے انجشہ !دھیرے دھیرے !کہیں آبگینوں کوٹھیس نہ پہنچے۔

 جس نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی عورت پر شفقت ورأفت کایہ عالم ہو،اسیے عورت کی بے اکرامی کہاں برداشت ہوسکتی تھی۔ بنوقینقاع کے کسی یہودی نے ایک مسلمان عورت کوچھیڑ دیا۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جہاد کیااورانہیں مدینہ سے ماربھگایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہواکہ کعب بن اشرف یہودی مسلمان عورتوں کی ہنسی اڑاتاہے اوران کے خلاف بے ہودہ اشعاربکتاہے توآپ نے صحابہ کی ایک جماعت کوبھیج کراسے قتل کرادیا۔

     مسلمانوںنے ایک زمانے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت کواپنائے رکھا۔عزت پر کٹ مرناان کی پہچان بن گئی ۔وہ غیوروجسور،شیر ودلیر تھے۔ وہ خواتین کے معاملے میں ہمیشہ نہایت حساس رہے۔ کبھی ایسانہیں ہواکہ کسی مسلمان بہن یابیٹی کوکوئی گزندپہنچی ہواورمسلمان خاموش رہے ہوں۔سندھ کے ساحل پر عرب خواتین کولوٹاگیا تو حجاج بن یوسف نے محمدبن قاسم کوبھیجااورانہیں بازیاب کرانے کے لیے پوراسندھ فتح کرڈالا۔قیصر روم نے اناطولیہ میں مسلمان عورتوں کوقیدی بنایا توایک بہن کی پکار’’یامعتصم ‘‘ پر خلیفہ معتصم باللہ ’’لبیک لبیک‘‘کہتاہواتخت سے اترکرسیدھا چھاؤنی پہنچااورلشکر لے کر رومیوں کے کئی شہر روندڈالے اور ان قیدی بہنوں کورہائی دلائی ۔

    آج ہمیں یہ سوچتے ہوئے کتنا دکھ ہوتاہے کہ ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید وبند کو بارہ سال گزرگئے ہیں۔ اسے ایک بے بنیاد مقدمے میں امریکی عدالت نے ۸۶سال کی سزاسنائی ہے۔ اس بارے میں مسلم دنیاکاردعمل کیاہے ؟اورخودہم پاکستانیوں نے اس کے لیے کیا کیاہے؟ہماری حکومت اس بارے میں اپنے وعدوں پر کس حدتک عمل درآمدکررہی ہے؟

    ہماری بے حمیتی کو دیکھ کر غیرمسلموں کویہ جرأت ہوئی ہے کہ وہ ہمیں بے غیرت،چاپلوس،اغراض پرست اورروپے کاپجاری قراردیتے ہیں۔ہماری اخلاقی پستی اورغیرت ایمانی سے تہی دامنی نے ہمیں اس حال تک پہنچایاکہ اغیار ہمارے بیچوں بیچ سے ہماری بہن کواغواکرکے لے گئے اورہمیں کسی مؤثراحتجاج تک کی توفیق نہ ہوئی۔

 انسانی زندگی بہت مختصر ہے۔ تیس چالیس سال ہوں یاستر،اسّی ۔گزرت کچھ پتانہیں چلتا۔کروڑوں لوگ آئے اوریوں گزرگئے جیسے تھے ہی نہیں۔ صرف انہی لوگوں کانام زندہ رہا جو کسی مقصد کے لیے جیے اوراپنے قول وعمل سے دنیا کے لیے ایک مثال بنے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی انہی میں سے ایک ہیں ۔  ان کی خاندانی شرافت،سیرت وصورت،اخلاقی بلندی،قوتِ سخن، علمی صلاحیت ، حالاتِ حاضرہ پرنگاہ اورتجزیے کی صلاحیت ہر چیزقابلِ رشک تھی ۔امتِ مسلمہ کے لیے ان کے جذبات قابلِ تقلیدتھے۔وہ ایک مشک وعنبرمیں بسی شخصیت تھیں اورمشک جہاں بھی ہو،اسے چھپایااورقید نہیں کیاجاسکتا۔ وہ نفع وضررکاحساب رکھنے والی نہیں۔وہ سودوزیاں سے آزاد اوربلند تر ذہن کی حامل ہیں

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

ان کی بقیہ زندگی جیل میں گزرے یاآزاد فضامیں ۔انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔انہیں جس کی رضا مطلوب ہے ،وہ ان سے راضی ہے۔انہیں جس کی شفاعت درکارہے ،اس کے راستے سے وہ ایک انچ بھی منحرف نہیں ہوئیں۔مسئلہ توہماراہے کہ ہم نے ایک غیر ت منداورباحمیت قوم ہونے کا ثبوت کہاں تک دیاہے ؟اگر ہم اپنی بہن کی بازیابی کے بارے میںاپنے فرائض سے غفلت برتتے رہے توتاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ہماراشمارانہی لوگوںمیں ہوگاجن کی مثالیں دے کر بتایاجاتاہے کہ …

حمیت نام تھا جس کاگئی تیمور کے گھر سے

عنوانات

پر اشتراک کریں

حالیہ مضامین

  پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟

آگئی چھٹیاں

پاک بھارت تعلقات

کشمیر کاالمیہ