مولانا اسماعیل ریحان صاحب مدظلہ العالی
اورنگ زیب نے نصف صدی سے زائد مدت تک ہندوستان پر حکومت کی۔ اس دوران وہ مغلیہ سلطنت کو عظیم تربنانے اور ان سرکش ہندؤوں راجاؤں کوسرنگوں کرنے کوششوں میں مصروف رہے جو مغل سلطنت کوکمزوراورشکستہ کرنے کی تاک میں تھے۔اس ہدف کوپوراکرنے کے لیے انہیں مسلسل جنگیں لڑنا پڑیںجو ملک کے مختلف گوشوں میں برپاہوئیں۔اگر اورنگ زیب پہلے اپنے باغی بھائیوں کوزیر نہ کرتے توان کا کوئی ہدف پورانہیں ہوسکتاتھابلکہ ان کاعہد خانہ جنگی ہی میں گزر جاتا اوراسے ناکامی کا مرقع اورعبرت کی تصویرسمجھاجاتا۔
پس اگرچہ بادشاہت سے پہلے خانہ جنگی کے دورمیں سے ان کا اپنے بھائیوں سے لڑنااوراپنے والد کونظر بند کرنا ایک قبیح واقعہ محسوس ہوتاہے مگردرحقیقت یہ اقدامات خوداورنگ زیب کی نگاہ میں بھی ناپسندیدہ تھے ۔ان کے اپنے مکتوبات کے علاوہ تاریخی واقعات بھی اس کی شہادت دیتے ہیں کہ انہیں ناگزیرحالات میں یہ راستہ اختیار کرنا پڑاجس میں کسی بھی حکمران کو موردِ الزام نہیں ٹہرایاجاسکتا۔
٭٭
اورنگ زیب کی ولادت ۱۵ذی قعد۱۰۲۸ھ (۱۶۱۹ء)کوگجرات میں ہوئی تھی۔ان کی والدہ ارجمند بانو عرف ممتازمحل بڑی پارساخاتون تھیں جن کی قبر پرشاہ جہاںنے تاج محل بنوایا تھا۔ اورنگ زیب نے بڑے راسخ علماء سے تعلیم حاصل کی تھی اورجید عالم بنے۔صوفیائے کرام سے بھی ان کاگہراتعلق تھا۔صوم و صلوٰۃ ،تلاوتِ قرآن اورذکرومناجات کے پابند، مزاج کے متین، بردبار اورسلیقہ شعارتھے۔ جرأت وشجاعت اورعزم واستقامت ان کے نمایاں اوصاف تھے۔
٭٭
اس زمانے کے بادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے کے بڑ ے شوقین تھے۔شہزاد ے اورامیر زادے اپنے اپنے ہاتھیوں کا مقابلہ کراتے اورجس کاہاتھی جیت جاتا،وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا۔لڑائی کاطریقہ یہ ہوتاتھاکہ دونوںہاتھیوں کو شراب پلا کراکھاڑے میں چھوڑ دیا جاتاتھا۔ یہ اسٹیڈیم کی طرح ایک کھلامیدان ہوتاتھاجس کے گرد حفاظتی باڑھ ہوتی تھی۔ بادشاہ جھروکے سے اس کا نظارہ کرتاتھا جبکہ بعض شہزادے گھوڑوں پر سوارہوکراسی میدان میں یہ نظارہ دیکھتے تھے۔
اورنگ زیب کی عمرچودہ سال تھی کہ ایک باراسی طرح ہاتھیوں کی لڑائی کرائی گئی۔شاہ جہاں نے حکم دیاکہ شہزادے گھوڑوں پر بیٹھ کر ہاتھیوں کوقریب سے لڑتاہوادیکھیں۔اورنگ زیب بے خوف وخطر اپنے گھوڑے کو ہاتھیوں کے بہت نزدیک لے گئے۔ ایک مست ہاتھی کی نگاہ ان پر پڑی تو اپنے مدمقابل کو چھوڑکر ادھر کی طرف دوڑپڑا۔شاہ جہاں اورامراء یہ دیکھ کر نہایت خوف زہ ہوگئے۔ ہاتھی کوواپس بھگانے کے لیے اس پر آتش بازی کی گئی مگر وہ آگے بڑھتارہا۔اورنگ زیب نے گھوڑے بھاگنے کی بجائے نیزہ سنبھالا اور جونہی ہاتھی اس پر حملہ آور ہوا، تاک کراس کی پیشانی پر وار کردیا۔مجمع میں دادوتحسین کاشوروغل اٹھا۔ لوگ شہزادے کی حفاظت کے لیے چاروں قل پڑھ کر دم کرنے لگے۔ اُدھر نیزے کازخم کھاکر بھی ہاتھی پیچھے نہ ہٹابلکہ مزید مشتعل ہوکر دوبارہ لپکااورشہزادے کو گھوڑے سمیت اپنی سونڈ اور دانتوں کے نیچے دبوچنے کی کوشش کی۔اورنگ زیب نے پھرتی کے ساتھ گھوڑے سے نیچے کود کر تلوارسونت لی اورخود کوبچا کر ہاتھی پر تلوار کے پے درپے وارکیے۔
اتنی دیر میںہاتھی کے مہاوت اور گرز بردارپہلوان ایک اور ہاتھی کو دھکیل کر مشتعل ہاتھی کے سامنے لے آئے۔ہاتھی کواپنامدمقابل دکھائی دیاتووہ اس کی طرف دوڑپڑا۔اس طرح یہ بلاٹلی۔ شاہ جہاںنے اورنگ زیب کوسینے سے لگایا اور وزن کے برابراشرفیاں غریبوں میں تقسیم کرائیں۔اس موقع پر شاہ جہاںنے اورنگ زیب کو کہا ـ : ’’بیٹا!ایسی جگہوں پر اَڑانہیں کرتے۔ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘‘
اورنگ زیب نے عرض کیا:’’جہاں پناہ!غلام کو اللہ نے پیچھے ہٹنے کے لیے پیدانہیں کیا۔‘‘
اورنگ زیب کو باپ کے زمانے میں سخت ترین مہمات پر جاناپڑا۔ پنجاب اور افغانستان کی گورنری ملی توقندہارکے محاذ پرایرانیوں کو اوربدخشاں کی جنگ میں ازبکوں کوناکوں چنے چبوائے۔ان کی عادت تھی کہ جنگ کے دوران بھی نماز کاوقت ہوجاتاتوسواری سے اتر کراطمینان سے نماز ادا کرتے تھے۔بدخشاں کی جنگ کے وقت ان کی عمر ۲۵سال تھی ۔ عین لڑائی کے دوران جبکہ تیروں ، پتھروں اورگولوں کی بارش ہورہی تھی ،ظہر کی نماز کاوقت ہوگیا۔اس وقت بلخ کی ازبک فوج نے مغل لشکر کو گھیرے میں لیاہواتھا۔اس کے باوجوداورنگ زیب نے وہیں گھوڑے سے اترکر نما زکی نیت باندھ لی اورنہ صرف فرض بلکہ سنت اورنوافل کو بھی بڑی دل جمعی سے اداکیا۔ازبک سردارعبدالعزیز خان نے یہ منظر دیکھاتو اپنے سپاہیوں کوجنگ بند کرنے کاحکم دیااورکہا:
’’ایسے شخص سے جنگ ،تقدیر سے جنگ ہے۔جو اللہ سے ڈرتاہے ،وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘
٭٭
۱۰۴۵ھ میں اورنگ زیب کو دکن کی گورنری دی گئی ۔اس دوران بھی سخت معرکے پیش آئے اورہرجگہ فتوحات نے اس خوش بخت نوجوان کے قدم چومے ،یہاں تک کہ بادشاہت نصیب ہوئی۔
اورنگ زیب نے عمر بھر کبھی شراب نہیں چکھی تھی ۔بالغ ہونے کے بعد کبھی نغمہ وسرود کے قریب نہ گئے۔سونے چاندی کے برتنو ں میں کبھی کھانانہیں کھایا۔
٭٭
برصغیر کی تاریخ اورخاندانِ مغلیہ میںاورنگ زیب عالمگیرکی وہی حیثیت ہے جو خلفائے بنوامیہ میں عمر بن عبدالعزیز ،بنوعباس میں ہارون الرشید اورسلاطینِ عثمانیہ میں سلیمان عالی شان کی تھی۔ برصغیر کے مسلمان انہیں فقط بادشاہ نہیں بلکہ ایک خدارسیدہ قائد اوراسلام کے مجاہد حیثیت سے دیکھتے ہیں اوربلاشبہ اورنگ زیب عالمگیر کی زندگی گواہ ہے کہ وہ ایک سچے ،متقی اورخدارسیدہ انسان تھے۔اس بات پر مؤرخین کااتفاق ہے کہ ان جیسی بڑی سلطنت ہندوستان میں کسی کونہیں ملی۔
عالمگیر نے پچاس سال دوماہ حکومت کی جس میں بہت کم وقت پایۂ تخت میں گزرا۔داراشکوہ پر قابو پانے کے بعدوہ شمال کی مختلف مہمات میں مصروف رہے۔ان کادربارکبھی آگرہ ، کبھی دہلی اورکبھی لاہور میں لگتا تھا۔ تاریخ کے صفحات پراکثر وبیشتر ہم انہیںلشکر کے ساتھ کہیں نہ کہیں پڑاؤڈالے دیکھتے ہیں۔ اس رجلِ عظیم کو محلات کے عیش وآرام سے خیموں کی زندگی اور شہ سواری پسند تھی۔ ان کی شہزادگی کابیشتر حصہ بھی محاذوں پر گزراتھا۔مرہٹوں کے خلاف مہم جوئی کا سلسلہ تین عشروں تک چلا۔اس کے ساتھ ساتھ بیجاپور اورگولکنڈہ کی ریاستوں پر بھی چڑھائی جاری رہی۔ان دشمنوں سے نمٹنے کے لیے اورنگ زیب کو زندگی کے آخری پچیس برس جنوبی ہندوستان میں گزارنا پڑے۔
مرہٹوں کو شکستِ فاش دینے کے بعد اور نگ زیب عالمگیر کی سلطنت کی حدودماضی کے تمام شاہانِ ہندوستان سے زیادہ وسیع ہوگئیں۔برصغیر میں کوئی خطہ ایسانہ رہا جہاں مغل تاج دارکاحکم نہ چلتاہو۔ کشمیر سے دکن اورافغانستان سے برما تک مغلیہ سلطنت کاسکہ رائج تھا۔ یہ مغلوں کی فتوحات کا نقطۂ عروج تھاجس کی مثال پہلے تھی نہ بعد میں۔
(۲)
مگر ملکی فتوحات سے کہیں بڑھ کراورنگ زیب عالمگیر کاکارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے اس سلطنت میں احیائے اسلام کاعظیم کارنامہ انجام دیا۔برصغیر میں اسلام اورمسلمانوں کواپنی اصل شکل میں باقی رکھنے میں اورنگ زیب عالمگیر کے دورکابہت بڑادخل ہے۔
اور نگ زیب نے تاج پوشی کے بعد شریعت کے احیاء کی طرف فوری توجہ دی۔ اکبر کے دورمیں آتش پرستوں سے متاثر ہوکر ’’تقویمِ الٰہی‘‘ وضع کی گئی تھی جس میں سال کاآغاز جشن نوروز سے ہوتاتھا۔اورنگ زیب نے اس کی جگہ دوبارہ ہجری تقویم کورواج دیا۔ جشن نوروز پر بھی پابندی لگادی گئی۔تمام غیراسلامی طورطریق اورقوانین موقوف کردیے گئے،شراب خانے اورجواخانے بند کردیے گئے۔دربارمیں چہارتسلیم کی رسم ختم کردی گئی۔حکم دیاگیا کہ غیرمسلموں کی طرح سرپرہاتھ رکھ کرسلام کرنے کی بجائے سنت کے مطابق فقط زبانی السلام علیکم کہا جائے۔حکام بھی عوام وخواص سے ملتے ہوئے فقط سلام کیا کریں۔ تمام غیر شرعی ٹیکس ختم کردیے گئے۔ہندوؤں کی زیارت گاہوں اورسالانہ تہواروں پرلگنے والے بازاروں میں لاکھوں روپے کی خرید وفروخت ہوتی تھی جس کاٹیکس حکومت لیاکرتی تھی ۔عالمگیر نے اسے بھی بند کرادیا۔
درباروں میں نجومیوں کی بڑی عزت افزائی ہوتی تھی۔سالانہ گوشواروں اورانتظامی کاموں کی ترتیبات کی تاریخ طے کرنے میں نجومیوں سے مشورہ لیا جاتا تھا۔عالمگیر نے نجومیوں کا عمل دخل ختم کردیا۔مغل بادشاہ شاہی محل کے ایک بالاخانے سے عوام کواپنادیدارکراتے تھے جسے جھروکہ درشن کہاجاتاتھا۔ بہت سے لوگ جب تک بادشاہ کادیدارنہ کرلیتے ،کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔اکبر کے دورسے یہ رسم جاری تھی ۔عالمگیر نے اسے ترک کردیا۔
مغل درباراورشاہی محل میں موسیقاروں اورگلوکاروں کی بڑی عزت افزائی کی جاتی تھی۔ اورنگ زیب نے موسیقی پر پابند ی لگادی۔جب موسیقار اورگویے بادشاہ سے مایوس ہوگئے توانہوںنے ایک جنازے کو بڑی دھوم دھام سے اٹھایااورماتم کرتے ہوئے شاہی محل کے قریب سے گزرے۔عالمگیر نے شوروغل سن کر وجہ دریافت کی تو گویوںنے کہا:’’موسیقی مرگئی ہے ۔اسے دفن کرنے جارہے ہیں۔‘‘عالمگیر نے کہا:’’اتنا گہر ادفن کرناکہ پھر اس کی آواز نہ آئے۔‘‘
عالمگیر نے وکیل شرعی کاعہدہ مقررکیااور اعلان کرایاکہ جس کسی کاحق بادشاہ یاکسی حاکم پر پر ہو،وہ وکیلِ شرعی سے مل کر اپنے حق کاثبوت پیش کرے اوراسے وصول کرلے۔ہر شہر کی عدلیہ میں قاضی کے ساتھ وکیلِ شرعی کاتقررہوا۔
تمام امورِ سلطنت کو شریعت کے مطابق انجام دینے کے لیے انہوںنے ہندوستان کے جید علماء و مفتیان کی مددسے فقہ حنفی کانہایت جامع ذخیرہ مدون کرایاجسے فتاویٰ عالمگیری کانام دیا گیا۔ عالمگیرنے خود فقیہ اورعالم کی حیثیت سے اس کی تدوین اورتصحیح میں حصہ لیا۔ایک مدت کی عرق ریزی کے بعد یہ مجموعہ تیار ہواجو آج بھی ہر دارالافتاء کی زینت ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں فقہی جزئیات اورفقہائے احناف کے مفتیٰ بہ اقوال جمع کرلیے گئے ہیں۔ اس مجموعے کی حیثیت شرعی آئین اورسرکاری قانون کی تھی اورمقدمات میں قاضی اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ کسی مقدمے میں بادشاہ کالحاظ بھی نہیں ہوتاتھا۔اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے۔
سورت (گجرات) کے ایک رئیس محمد محسن نے دعویٰ پیش کیاکہ شہزادہ مراد نے گجرات کی صوبے داری کے زمانے میں اس سے پانچ لاکھ روپیہ قرض لیاتھاجوابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ یہ روپیہ ایک صندوق میں شہزادہ مراد کی مہرلگاکرخزانے میں داخل کردیاگیاتھا اوراب تک اسی حال میں موجود ہے۔ دعوے کے جواب میںعالمگیر نے کہا:’’دعویٰ ثابت کرو اوراپناروپیہ لے لو۔‘‘
اس نے کہا:’’ثبوت دیوانی عدالت کے مطابق پیش کیاجائے یاشریعت کے ۔‘‘
عالمگیر نے کہاــ:’’کسی بھی طرح ثابت کردو۔‘‘
مدعی نے ثبوت پیش کردیے۔قاضی نے فتاویٰ عالمگیری دیکھی ۔اس کی روسے ثابت ہواکہ جب میت کاترکہ وارثوں میں سے کسی کے ہاتھ میں ہوتومیت کاقرض اداکرنااس پر واجب ہے۔
اورنگ زیب نے پانچ لاکھ اداکرنے کاحکم جاری کردیا۔یہ سن کرمحمد محسن نے کہا:’’ہم غلاموں کاحق ہماری درخواست کے مطابق ثا بت ہوگیا۔اب ہم یہ روپیہ حضور پر نثار کرتے ہیں۔‘‘
اورنگ زیب نے اعلان کیا:’’محمد محسن اپناحق ہمیں بخشتاہے۔ ‘‘
اس کے بعد اسے ایک ہاتھی ،ایک گھوڑے اورخلعت سے نوازاگیا۔
٭٭
اس درویش صفت بادشاہ کے معمولات یہ تھے کہ صبح صادق سے پہلے بیدارہوکر مسجد جاتے۔ فجر کی نماز کے بعدکلام اللہ کی تلاوت اورذکرووظائف میں مشغول رہتے۔اس کے بعد خلوت گاہ میں آکر قریبی امراء اورعدلیہ کے منتظمین کوطلب کرتے اوران کی مددسے ملکی وعدالتی امور انجام دیے جاتے۔اس کے بعد فوج کی پریڈ ملاحظہ کی جاتی۔کچھ دیر بعد دربارعام منعقد ہوتا جس میں دوردراز کے امراء ،سفیر اورضرورت مند حاضری دیتے۔
ظہر کی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے دیوانِ خاص میں الگ خصوصی مجلس منعقد ہوتی جس میں اہم فرامین لکھے جاتے۔ظہر کی اذان پر وہ مسجد میں جاکر نوافل ،سنتوں اوروظائف میں مشغول ہوجاتے۔ فرض نماز کے بعد خلوت خانے میں جاکر عصرتک وہیں رہتے۔اس دوران قرآن مجید کی کتابت اور تلاوت جاری رہتی ۔کبھی بیگمات آکر مستحق خواتین کے لیے امداد اورمظلوم عورتوں کی درخواستیں لے کر حاضر ہوتیں۔اس خلوت میں دینی کتب خصوصاً فقہ اور رسائلِ تصوف کا مطالعہ ہوتا۔کبھی اہم مشورے کے لیے امراء کووہیں طلب کرلیاجاتا۔ عصر کی نماز کے بعد دیوانِ خاص میں اہم ملکی امور انجام دیے جاتے۔مغرب کی نماز کے بعد کچھ دیر وظائف ادا کیے جاتے۔ پھر دیوانِ خاص میں وزیر اعظم سے مشاورت ہوتی ۔عشا ء کی نماز کے بعد امراء اورافسران کورخصت کردیاجاتا۔ رات کوتین چارگھنٹے سے زیادہ نہ سوتے اور زیادہ وقت عبادت میں گزارتے۔۴۵سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنا شرو ع کیااورکچھ ہی مدت میں اس نعمت کی تکمیل کرلی۔
بیماری کی حالت میں بھی معمولات ترک نہیں ہوتے تھے۔سخت گرمی کے روزوں میں بھی بلاتکان عبادت کرتے۔ ایک ماہِ رمضان کاحال ایک وقائع نگاریوں لکھتاہے:
’’رمضان کامہینہ تھا۔ سخت لوچلتی تھی۔ دن بڑے ہوتے تھے۔ بادشا ہ سلامت دن کوروزہ رکھتے۔ وظائف پڑھتے۔تلاوت وکتابت وحفظ کلام مجید کرتے۔ اپنی عدالت اورسلطنت کے کاموں کوانجام دیتے۔شام کوروزہ افطارکرکے موتی مسجد میں نمازوتروایح اورنوافل پڑھتے۔آدھی رات کو تھوڑی سی غذا کھاتے۔ رات کوبہت کم سوتے۔ اکثر عبادت کرتے۔بعض بابرکت راتوں میں ساری رات عبادت کرتے۔اسی طرح سارا مہینہ گزارا ۔‘‘
تصوف سے ان کی دلچسپی کایہ حال تھاکہ حضرت مجدد رحمہ اللہ کے صاحبزادے اورمجاز حضرت خواجہ محمد معصوم رحمہ اللہ کے پاس خودحاضر ہوکربیعت کی اورشاہی محل میں ہم نشینی کی درخواست کی ۔ جب اصراربڑھاتوخواجہ صاحب نے اپنے بیٹے شیخ سیف الدین کو بادشاہ کی باطنی تربیت کے لیے بھیج دیا۔شیخ سیف الدین ،عالمگیر کے حالات سے اپنے والدگرامی کومطلع رکھتے تھے۔ایک مراسلے میں بادشاہ میں آثارِ ذکر ظاہر ہونے اوربعض منازلِ سلوک طے کرنے کی بھی اطلاع دی۔عالمگیر نے اس کے بعد بھی کئی بارخوجہ معصوم رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دی ۔جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے ، زبانی گفتگو کی جرأت نہ ہوتی ،جو کہناہوتا،لکھ کر پیش کردیتے۔انہی خواجہ سیف الدین نے دہلی میں خانقاہِ مجددیہ کی بنیاد رکھی جس کی مسندِ ارشاد اگلے دور میں مغل شہزادے مرزا مظہرِ جانِ جاناں نے سنبھالی ۔
(۳)
اورنگ زیب عالم گیر جنوبی ہندوستان کی فتوحات کی تکمیل کے بعد بھی وہاں کے انتظامات مستحکم کرنے کی فکر میں رہے۔ اپنے دارالحکومت سے سینکڑوں میل دوروہ احمد نگر میں ڈیرے ڈال کروہ اہم ملکی امور پر غور وخوض کرکے احکام جاری کرتے رہے۔ ان کی عمر ۹۱سال ہوچکی تھی ،عمررسیدگی ، امراض اورمحنت نے انہیں تھکادیاتھا ۔
آخر کارذی قعدہ ۱۱۱۸ھ(1707ء) میں انہیں سخت بخار چڑھا۔بخار کی شدت کے باوجود چار دن تک پنج وقتہ نمازیں باجماعت اداکیںمگر مرض علاج کے باوجود بڑھتاگیا۔جمعہ ۲۸ذوالقعدہ کو عالمگیر نے نمازِ فجراداکرکے کلمہ طیبہ کاوردشروع کیا اورسورج بلند ہونے کے کچھ دیر بعد جانِ فانی خالقِ حقیقی کے سپردکردی۔
یہ نیک دل بادشاہ قرآن مجید کی کتابت اورٹوپیاں سلائی کرکے رزقِ حلال کماتاتھا ۔ وصیت میں لکھاتھاکہ میرے ترکے میں سے ساڑھے چار روپے ٹوپیوں کی سلائی سے بچے ہوئے ہیں ۔انہی سے تجہیز وتکفین کی جائے۔ ۸۰۵روپے کتابتِ کلام اللہ کی کمائی سے بچے ہوئے ہیں ،وہ فقراء پر صدقہ کردیے جائیں۔
غورفرمائیں کہ یہ احوال ،یہ صفات اوریہ ورع وتقویٰ اورنگ زیب کومحض ایک بادشاہ ثابت کرتے ہیں یا ایک نہایت متقی پرہیز گار عالم اورولی اللہ۔
اب قارئین کو بخوبی سمجھ آگیا ہوگا کہ ہندو مؤرخین،سیکولر لابی اوراکثرمستشرقین نے اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کواپنا وظیفہ کیوں بنا رکھاہے۔دراصل وہ اورنگ زیب کوایک ’’مولوی‘‘ کے طورپر دیکھتے ہیں ۔اگر اورنگ زیب کی جگہ کوئی ظالم اورفاسق بادشاہ بھی ہوتا تب بھی اس طبقے کوکوئی شکایت نہ ہوتی ۔ ضد صرف یہ ہے کہ ایک مولوی کوحکومت کیوں ملی۔اسی لیے وہ عالمگیر کوایک ضدی،ظالم ،انتہاپسند، بنیاد پرست اور متعصب شخص کے طورپر متعارف کراتے ہیں۔ سیکولر لابی کو ہر پختہ فکر مسلمان متعصب اورضدی اس لیے نظر آتاہے کیونکہ اس کی زندگی اس طبقے کی آزاد خیالی کاساتھ نہیں دیتی۔
ہندؤوں کی اورنگ زیب سے ناراضی کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس مردِ مجاہد نے مرہٹہ راج پر کاری ضرب لگائی تھی اورہندوؤں کے برصغیر پر تسلط کاخواب پورانہیں ہونے دیاتھا۔
مستشرقین کویہ جلن ہے کہ عالمگیر کے دورمیں نظریاتی محاذ پر اسلام کوفتح ہوئی اورغیراسلامی نظریات اورخلافِ شر ع افعال کی ہر جگہ حوصلہ شکنی اوربیخ کنی کی گئی۔
………
اورنگ زیب عالمگیر کی فوجی ترتیبات کابھی جواب نہ تھا۔ مولانامحمد حسین آزادمرحوم نے ان کی منظر کشی جس طرح کی ہے ، اس کاجواب نہیں ۔قارئین کی دلچسپی کے لیے مولانامرحوم کی تحریر پیشِ خدمت ہے۔ پرانی اردوسے واقف بزرگ اس کااصل مزالیں گے۔باقی احباب کو بھی کچھ نہ کچھ لطف ضرورآئے گامگر اردواورفارسی لغات ساتھ رکھیں کہ ان کی مدد کی باربار ضرورت پڑے گی۔
مولانالکھتے ہیں:’’غرض لشکر شاہی نے نشان چڑھایااوردکن کوروانہ ہوا۔سب سے پہلے ایک ہاتھی پر علم اژدھاپیکر ۔ پیچھے اس کے ہاتھیوںپرہندوستان کاماہی مراتب ، اپنی ولایت کے طوغ وعلم ، برنجی اورفولاد ی نقارے اوردمامے ۔بعد ان کے ہزاروں ہاتھی ، ہودج عماری سے سجے۔سونڈوں میں فولادی زنجیریںلیے۔ گلے میں ہیکلیں۔ پیشیانیاں شام ِ شفق کی طرح رنگین۔اس پر سنہری روپہلی ڈھالیں۔ زربفت کی جھولیں پاؤں تک لٹکتی ۔کسی پر ہودج ، کسی پر عماری ۔ریشمی اورکلابتونی رسیوں سے کسی ۔گردنوں پر مہاوت ، جن کے گلے میں زربفت کی کرتیاں،سرپر جوڑے دار پگڑیاں،کمرمیں کٹار، ایک ہاتھ میں گجباگ ، ایک میں آنکس ۔ جھومتے جھماتے چلے جاتے تھے۔
آگے پیچھے چرکٹے سانٹے مار،بھالے دار،برچھیت،باندارفتیلے سلگاتے چلے جاتے تھے۔
پھر ہزاری سواروں کے پَرے۔سرسے پاؤں تک لوہے میں ڈوبے بہادرجوان ۔ ترک بچے، افغان ، حبشی ،راجپوت، دو دو تلواریں باندھے ،فولادی خود سروں پر دھرے ،کمر میں قرولی اور کٹار، پشت پر گینڈے کی ڈھال، چار آئینہ میں سجے ،کہنیوں تک دستانے چڑھے،ہاتھ میں سات گز کا برچھا، نگاہوں سے خون ٹپکتا،مونچھوں کو تاؤ دیتے ، گھوڑے اڑاتے چلے جاتے۔پھر ہزاروں سانڈنیاں خوش رفتار کہ جن کے سوسوکوس کے قدم ،ان پر بانکے راجپوت ،لال پگڑیاں باندھے ،زرد انگرکھے پہنے ،آبی بانات کے پاجامے چڑھائے ،ہتھیار لگائے،مہاریں اٹھائے ۔
جب یہ گزر گئے توسواری کے خاص خاصے نظر آئے۔عربی ،ترکی ،عراقی ،یمنی ،کاٹھیاواڑکے دکھنی ۔چاندی سونے کے بھاری بھاری ساز۔کسی پرجڑاؤ زین دھرا ،کسی پر چار جامہ کسا،قجریاں اور پاکھیں پٹھوں پر پڑیں ،جن میں قاقم اور سمور کی جھالر ،کلابتوں کے پھندے ،گلے میں سراگائے کی چوڑیاں لٹکیں ،سرپر کلغیاں ،طلائی اورنقرئی۔ریشمی باگ ڈوریں ، سائیسوں کے ہاتھوں میں اُلیل کرتے ،چوکڑیاں بھرتے چلے جاتے۔
ان کے بعد عربی، رومی، تاتاری، فرنگی، ہندی باجے۔ نقیبوں اور چوبداروں کے آوازے۔ دمامے کی چوٹ کے ساتھ کڑکتیری کے کڑکوں کاوہ خیال بندھاکہ بزدلوں کے دلوں میں بھی لہو جوش مارنے لگے۔ان کے بعد احدیوں اورخواصوں کاانبوہ ۔کندھوں پربندوقیں ،جن پر بانات کے غلاف۔پھر خاص برداروں کاغول۔ سروں پر کشمیری شالیں بندھی ،کم خواب کے انگرکھے ،زربفت کی نیم آستین پہنے ، گجراتی مشروع گھٹنے چڑھائے ،اصفہانی تلواریں سونتے ،مرصع قبضے ہاتھ میں لیے ، سنہری روپہلی کمان کمر میں ۔ ان کے بعدسقوں کاغول آیا کہ چھڑکاؤ سے روئے زمین کوتروتازہ کردیا۔غلام اورخواجہ سراانگیٹھیاں اورعودسوز لیے خوشبوؤں سے دماغ معطر کرتے چلے گئے۔
پھر ارکانِ دربار کے جمگھٹ ،بیچ میں شاہِ خورشید کلاہ،سفید ڈاڑھی ، بڑھاپے کانور منہ پر۔ہوادار میں سوار۔ساتھ ایک خاصے کاگھوڑا۔پیچھے ایک سونے کی عماری ہاتھی پر دھری ۔جروب کاپیمانہ اورکوس کاپیالہ پڑتاچلاجاتا۔
سواری سے کوس بھر پیچھے سینکڑوں ہاتھی ،مست جنگی دیوزادکی مورت۔ مستکوں پر فولادی ڈھالیں ، ایک کالی گھٹا چلی آرہی تھی کہ جس سے پانی کی بجائے مستی ٹپکتی تھی۔
پیچھے چیتوں کے چھکڑے ،آنکھوں پر زردوزی ،دیدہ بند،کمر میں کلابتونی اورریشمی حلقے پڑے۔ ساتھ ہی شکاری کتے ،تازی،ولائتی بودار ،بل ڈوگ کہ شیر کاسامنا کریں اورپلنگ سے منہ نہ پھریں۔ پیچھے کوسوں تک شہزادوں اورارکانِ دولت کے لشکر ۔راجوں مہاراجوں کی فوجیں ۔پیادوں کے غول اور سواروں کے رسالے ،رنگار نگ کے ،نشانی جداجدا،پھریرے اڑاتے چلے جاتے تھے۔بہیر بنگاہ کاتانتالگاتھا کہ جس کاصبح سے شام تک خاتمہ نہ تھا۔ ‘‘
یہ تھی مولانا محمد حسین آزاد مرحوم کے الفاظ میں اورنگ زیب عالمگیر کی فوج کشی کی ایک جھلک…جسے پڑھ کرماضی کی عظمتِ رفتہ کاایک عجیب تاثر دل پرنقش ہوجاتاہے ۔ساتھ ہی اپنے حالات پر نگاہ جاتی ہے تو بے ساختہ اقبال کے یہ اشعار زباں پر آجاتے ہیں:
ہوگئی رُسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا نا زتھے ،ہیں آج مجبورِ نیاز
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کوکردیتاہے گاز
ہوگیا ہے مانندِ آب ارزاں مسلماں کالہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز