طریقہ تعاون

استحکام مدارس وپاکستان

مولانا محمداسماعیل ریحان
جب سے دنیا بنی ہے ،خیر وشر کی کشمکش چلی آئی ہے۔ حق وباطل کے مابین معرکہ کبھی رکنے میں نہیں آیا۔ یہی انسان کی آزمائش اورابتلاء ہے۔کوئی اہلِ حق کی صف میں قدم جما کر سعادتِ دارین سے بہرہ ورہوتاہے اورکوئی باطل کاعلمبرداربن کر اپنی آخرت کھوٹی کرتاہے۔
اُمتِ مسلمہ گزشتہ اڑھائی تین صدیوں سے جن سخت ترین حوادث میں مبتلاہوئی ،ان میں سب سے بڑا فتنہ ،استعماری طاقتوں کامسلم ممالک پر وہ تسلط ہے ،جس نے نہ صرف ہمیں سیاسی لحاظ سے غلام اور معاشی لحاظ سے مفلس وکنگال بنادیا بلکہ ہمیں فکری ونظریاتی طورپر بھی مفلوج کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔برصغیر پاک وہند پر انگریز سامراج کے تسلط کے بعد یہاں کی قدیم حکومتیں ختم کردی گئیں۔ مغل بادشاہوں کو عظمت ایک بھولی بسری داستان بن گئی ۔درجنوں عظیم الشان ریاستوں کو قصہ پارینہ بنادیاگیا۔اس قدیم نظام کے تحت چلنے والے علمی ادارے بھی ختم ہوگئے۔
ایسے میں مسلم زعماء نے دستیاب وسائل کے اندر، دو اہم میدانوں میںقدم جما کرقوم کے تشخص کی حفاظت کی سرتوڑ کوشش کی۔ ایک میدان سیاسی تھاجس میں ایک طرف مسلم لیگی رہنماؤںاوردوسری طرف جمعیت علمائے ہندکے قائدین نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آوازاٹھائی۔طریقِ کار کے اختلاف کے باوجود ،یہ ہدف مشترک تھاکہ استعمار کی زنجیریں کاٹی جائیں اورمسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے طاقتور اورفعال بنایاجائے۔
دوسرا میدان ،علمی اورفکری میدان میں مسلمانوں کے عقائد وافکاراوران کی علمی متاع کے تحفظ کا تھا۔ اس کے لیے علمائے کرام نے جگہ جگہ مدارس قائم کیے جن میںدارالعلوم دیوبند اورمظاہر علوم سہارنپور کانام سرفہرست ہے۔ یہ مدارس دینیہ اسلام کے وہ قلعے ثابت ہوئے جن میں اہلِ باطل ہزارکوشش کے باوجود نقب نہ لگاسکے۔ نہ صرف یہ کہ ہرد ینی شعبے کی آبیاری ،ا نہی علمی مراکز کے دم سے تھی ،بلکہ یہاں سے مسلمانانِ برصغیر کو بہترین قیادت بھی میسرآئی۔ان میں سے شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی اورمولاناابوالکلام آزاد،وہ ہستیاں ہیں جن کا نام ہندوستان کے سیاست دان آج بھی عزت واحترام سے لیتے ہیں۔ان میں حضرت مولاناشبیر احمد عثمانی،حضرت مولاناظفر احمد عثمانی اورمفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی جیسی شخصیات صف اول میں تھیں جن کامسلم لیگ کاقبلہ درست کرنے اوراسے عوامی حمایت دلوانے میں اہم کردارتھا۔
علمی وسیاسی میدانوں کی اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں آخر کاربرطانوی سامراج کواپنابوریابستر گول کرناپڑااوربرصغیر کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد مسلم مملکت کی شکل میں ابھرا۔دوسری طرف بھارت میں بھی مسلمانوں کاتشخص سلامت رہااوران کی سیاسی اہمیت کوتسلیم کیاگیا۔
٭
قیام پاکستان کے بعداستحکام ریاست کامرحلہ درپیش ہواتویہاں بھی علماء اوردینی مدارس کا کردار ناقابلِ فرامو ش رہا۔ خاص کر آئین ودستور کی تدوین میں علماء کی مساعی کاکوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اکثروبیشتر حکمرانوںنے تحریکِ پاکستان کے مقاصد پر اپنے سیاسی مفادات کوترجیح دی اوراسلامی نظام کے نفاذ کاوعدہ طاقِ نسیاں میں رکھ دیاگیا۔اس اصولی انحراف نے طرح طرح کے فتنوں کو جنم دیااور ملک بارباراندوہ ناک حوادث سے دوچار ہوا۔
علمائے کرام نے اس دوران اپنی ذمہ داریوں کواداکرنے کی کوشش جاری رکھی۔ ملک میں دینی مدارس کے بڑھتے ہوئے سلسلے کوایک نظم ونسق کے ساتھ چلانے کے لیے ہمارے اکابرنے۱۹۶۰ء میں’’ وفاق المدارس العربیہ ‘‘ کی بنیاد رکھی جواس وقت پاکستان میں دینی تعلیم کاسب سے بڑابورڈ ہے جس کے تحت سال گزشتہ تک ایک لاکھ ستائیس ہزارعلمائے کرام،ایک لاکھ ۷۲ہزار۹۵۰عالمات،۹ لاکھ ۸۹ہزار۶۵۹ حفاظ اورحافظات علم دین کی دولت سے دامن بھر چکے ہیں۔ ۲۰ہزار۶۵۰مدارس اس ادارے سے ملحق ہیں جن میں پچیس لاکھ ،۱۰ہزار ۴۸۲طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔منتظمین اوراساتذہ سمیت ایک لاکھ ۲۱ہزار۸۷۹افراد کاعملہ ان مدارس میں دن رات تعمیرِ اذہان کاکام کررہاہے۔
یہ اعدادوشمار انسان کوحیران کردیتے ہیں اوریقین نہیں آتا کہ بغیر کسی حکومتی امداد کے اتنے بڑے پیمانے پرتعلیم وتربیت کایہ کام کس طرح ہورہاہے۔ایمان سے روشن دل ،اسے اللہ کی مہربانی کرم اورنعمت تصور کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارسِ دینیہ کاوجود ،خالقِ کائنات کاعظیم انعام ہے جس کی بدولت اس ملک میں اسلامی اقداراوردینی شعائر باقی ہیں،لوگ عفت وعصمت کے مفہوم سے آشناہیں۔قرآن پڑھنے پڑھانے والے موجود ہیں ۔لوگ نمازروزے سے واقف ہیں اورکوئی بھی دینی مسئلہ آجائے توانہیں علماء سے رہنمائی حاصل کرنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی کہکوئی گاؤں اوربستی علماء سے خالی نہیں۔ہرجگہ مساجد کسی نہ کسی درجے میں آبادہیں ۔اسی لیے مجموعی طورپر یہ معاشرہ اسلامی اورمذہبی معاشرہ ہی کہلاتاہے۔
مگرد وسری طرف اسلام بیزارطبقہ،اسلام کے ان مراکز کی ترقی اورپھیلاؤسے سخت ہراساں ہے۔کیونکہ یہ طبقہ و درحقیقت مغرب کاپروردہ اوراس سامراجی نظام کا تربیت یافتہ ہے جس سے ہمارے آباؤاجدادنے بڑی قربانیاں دے کر نجات حاصل کی تھی ۔اس وقت یہ لوگ بڑی تندہی سے پاکستان کوایک لبرل ملک بنانے کی فکر میں ہیں اورا ن کی کوشش ہے کہ اس ناپاک کام کے لیے موجودہ حکومت کو استعمال کیاجائے جس نے گزشتہ تین سالوں میں امن وامان اورترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک اچھی ساکھ بنالی ہے۔اس مہم کے لیے پہلے قدم کے طورپر مدارس کے گرد گھیراتنگ سے تنگ تر کیاجارہاہے اوراس کے ساتھ ساتھ ناموس ِ رسالت سے متعلقہ قوانین میں ردوبدل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ ان حرکتوں کااثر کتنامہلک ہوسکتاہے۔ملک جس قدر لبرل ازم کی طرف جائے گا،اسی قدراس کی نظریاتی اساس کمزورہوتی جائے گی۔ دوقومی نظریہ جوپاکستان کی بنیاد ہے ،تیزی سے دفن ہوجائے گااورعلمی وفکری محاذ پرپاکستان کے وجود کاکوئی جواز ہی نہیں رہے گاجس کے بعد ملک سے غداری اوراغیار سے وفاداری کے جذبات تیزی سے پرورش پائیں گے اوروطن کی بقا وسلامتی کے لیے لڑی جانے والی کسی بھی جنگ میں ہماری پوزیشن نہایت کمزورہوگی ۔لبر ل ازم کے فروغ کے لیے استعمال کی جانے والی حکومت بھی اپنی جڑوں سے محروم ہوجائے گی اورعوام کی نگاہ میں اس کے سابقہ کارنامیبے حیثیت ہوجائیں گے۔
ہمارے اکابرنے اس ساری صورتحال کو بغورد یکھنے کے بعدفیصلہ کیاہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے پلیٹ فارم سے قوم کواسلامی اقدارکے تحفظ ،مدارس کے دفاع اورملک کی سلامتی کے لیے جمع کیاجائے ۔ اس سلسلے میں اتوار۳اپریل کو لاہور میں ایک تاریخ ساز جلسہ منعقد کیاجارہاہے جسے’’استحکام مدارس وپاکستان کانفرنس‘‘کانام دیاگیاہے کیونکہ مدارس اورپاکستان دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔یہ جلسہ ان شاء اللہ مسلمانانِ پاکستان کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا ۔اس کی آواز بہت دورتک پہنچے گی اوردنیا دیکھ لے گی کہ پاکستان کے مسلمان مدارس کے تحفظ ،ملک کی سالمیت ،دینی شعائرکی بقا اوراسلامی قوانین کے دفاع کے لیے ایک جان ہیں ۔
اس وقت نہ صرف مدارس کے اربابِ انتظام بلکہ پاکستان کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جلسہ عام کوکامیاب بنانے کے لیے اپنی اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلائیں۔ کیونکہ ہماری کامیابی ، اتحاد اوریک جہتی میں ہی پوشیدہ ہے۔

عنوانات

پر اشتراک کریں

حالیہ مضامین

  پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟

آگئی چھٹیاں

پاک بھارت تعلقات

کشمیر کاالمیہ